Saturday, October 12, 2013


ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔

تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام
مخدوم پور سے نکلی ٹرین میاں شمیر کے راستے خانیوال جا رکتی ہے۔ شہر میں ایک سٹیشن، ایک جنگلے والی کوٹھی اور ڈھیر ساری یادیں ہیں۔ اسٹیشن پاکستان کا دوسرا بڑا جنکشن ہے، کوٹھی شہر کی پہلی بڑی کوٹھی ہے اور یادیں اب گرم ہوا میں ریت کے زروں کی طرح اڑتے اڑتے کبھی ماتھے کی شکنوں میں بیٹھتی ہیں اور کبھی آنکھوں کے کونوں میں پڑاؤ ڈالتی ہیں۔
سول لائنز میں واقع جنگلے والی کوٹھی کی بھی اپنی ہی تاریخ ہے۔ کہتے ہیں سر ولیم رابرٹس جو پیشے کے اعتبار سے محکمہ زراعت کے افسر تھے، 1906 میں یہاں پہنچے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے یہاں رابرٹس کاٹن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی اور یہ کوٹھی تعمیر کروائی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، لکڑی کے پھاٹک جیسے جنگلے کے سبب ولیم رابرٹس اور ان کی کوٹھی سارے شہر میں مشہور ہو گئی۔ روزگار کا سلسلہ بڑھا تو ولیم صاحب کے بیٹے ڈاکٹر تھامس جونز رابرٹس بھی ہندوستان آ گئے۔ کام تو خیر کیا ہونا تھا، خانیوال کی بود و باش انہیں اتنی پسند آئی کہ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
پاکستان بنا تو انہوں نے جنگلی حیات کے ادارے کو بڑی محبت سے پروان چڑھایا اور The Birds of Pakistan جیسی کتاب لکھی جو اس علاقے میں پائے جانے والے پرندوں کا ایک مستند حوالہ ہے۔ رہ گئی بات رابرٹس کاٹن ایسوسی ایشن کی، تو اس کا دفتر اب بھی چک شاہانہ روڈ پہ قائم ہے۔
گئے وقتوں کی یاد میں ایک Forgetti صاحب ہیں جو کبھی کبھار یہاں دکھائی دیتے ہیں اور پچھلی صدی میں رابرٹس صاحب کے لگائے ہوئے سو سو سال پرانے کچھ پیڑ ہیں جو وقت کی بھاگ دوڑ سے آزاد ہیں۔
شہر آباد ہونے کی کہانی بھی غلام عباس کے “آنندی” جیسی ہے۔ آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں ایک معمولی گاؤں ہوا کرتا تھا، جسے کہنہ خانیوال کہتے تھے۔ 1865 میں یہاں اسٹیشن بنا اور ریل پہنچی۔ تھوڑا عرصہ گزرا تو ایک سرائے بن گئی جس کے آثار اب بھی دوکانوں کے بیچ بیچ کہیں دکھتے ہیں، پھر جیسے شہر بیدار ہو گیا۔ سات سالوں میں اتنی ترقی ہو ئی کہ گیان دینے کے لئے سکول کھولنا پڑا۔
صدی پلٹی تو لوگوں کو لگا کہ اب ترقی کا سفر تھوڑا دھیما پڑ جائے گا مگر وقت کی عمر کہاں ہوتی ہے جو ماند پڑے۔ 1904 میں رہنے والے صاحب لوگوں کے لئے ریلوے کالونی بنی اور دورے والے بابو کے لئے کینال ریسٹ ہاؤس۔
چار سال گزرے تو لوئر باری دوآب کینال بھی یہاں آن پہنچی۔ اسی نہر کے دفاتر میں بیٹھ کر خانیوال کا پہلا نقشہ بنایا گیا، جس میں ایک طرف پرانا شہر ہے، ایک طرف سول لائنز کچہری اور کلب اور دونوں دنیاؤں کے بیچ میں ریل کی لکیر۔
1911 میں خانیوال کو ٹاؤن کا درجہ دیا گیا اور اگلے سال ہی یہاں پہلا ریلوے ہسپتال بنا۔ آباد کار آتے گئے، چک آباد ہوتے گئے اور پانچ سال بعد خانیوال تحصیل بن گیا۔ 1921 میں یہاں پہلا اینگلو انڈین ورنیکولر سکول کھلا اور 1930 میں سول لائنز کے ساتھ ہی خالصہ ہائی سکول کا افتتاح ہوا۔ جب اتنا کچھ بس گیا تو پھر سنٹرل کوآپریٹو بنک نے بھی اپنا دفتر کھول ڈالا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے بلاکوں میں مختلف مذہب، طبقے اور رویے آتے گئے اور آباد ہو تے گئے۔ 1925 کے خانیوال کے بلاک نمبر 6 میں سناتن دھرم مندر ہوا کرتا تھا، بلاک نمبر 11 میں مرکزی جامع مسجد تھی اور بلاک نمبر 4 میں گورودوارہ سنگھ سبھا۔
تھوڑا وقت گزرا تو گرودوارہ کے ساتھ ہی گورو نانک لائبریری کھل گئی۔ پینتیس کا سن آیا تو نئے قانون کے ساتھ ساتھ خانیوال میں نیا گھاٹ بھی بنا جسے گاربٹ گھاٹ کہا جانے لگا۔
دو سال اور گزرے تو شہر کے ایک متمول شخص، بھوجا رام نے مسافروں کے لئے ایک سرائے بنوائی۔ اسی دیکھا دیکھی میں کچھ اور لوگوں نے سادھوؤں کے لئے کٹیا گھر بھی بنوا دیا۔ پہلے پہلے شہر میں دو شمشان گھاٹ ہوا کرتے تھے۔ آبادی بڑھی تو مردے بھی لاوارث ہونے لگے، ایسے میں کوٹ بیربل سے آگے لاش گھر بنوایا گیا۔
اب کچھ ایسا ہے کہ بلاک نمبر دو کے آریہ سماج مندر اور لکڑی منڈی کے دھرم شالہ کے کچھ کچھ آثار ملتے ہیں۔ گورودوارے کی جگہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں آتش بازی بنتی ہے اور مذہب کا پیلا، گندھک کے پیلے میں رچ بس گیا ہے۔ گھاٹ سمٹتے سمٹتے مٹ گیا ہے۔
جب سے لوگوں نے کھلے دل اور کھلے ماتھے کے ساتھ سفر کرنا چھوڑا، سرائے بھی ویران پڑی ہے۔ جنگلے والی کوٹھی کے سامنے واقع سادھو گھر کی اوپر والی لکڑی کی جعفریاں اب ادھ کھلی آنکھوں سے نیچے نئی دوکانیں دیکھتی ہیں۔ شمشان گھاٹ پہ بچے کرکٹ کھیلتے ہیں اور رہی بات لاش گھر کی تو اسے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں زندوں کو گھر نہیں ملتا، وہاں لاش گھر کی جگہ کون چھوڑتا۔
مٹی کی زرخیزی کے سبب اچھے وقتوں میں یہاں پنجاب بھر کی گندم اور کپاس اگتی اور ملتی تھی۔ غلے کے ذخیرے کے لئے گودام تھے اور کپاس کی جننگ کے لئے فیکٹریاں اور کچھ گودام تو اس قدر بڑے تھے کہ ریل کی پٹریاں اندر تک چلی جاتی تھیں، مگر پھر آزادی مل گئی ۔ سوراج مل گیا مگر اپنا اناج نہ ملا۔ پہلے گندم لینے کے لئے اونٹوں کے گلوں میں تختیاں ڈالنا پڑی پھر آہستہ آہستہ ریل کی پٹڑیاں بھی بک گئیں۔
شہر کے آس پاس ہنومان گڑھ اور سردارپور کے گاؤں ہیں جہاں تقسیم سے پہلے کے غیر تقسیم شدہ لوگ رہا کرتے تھے۔
1974 کی بات ہے کہ کینیڈا سے کوئی ہریش صاحب خانیوال آئے اور لوگوں سے پرانے مندروں کے بارے میں پوچھنے لگے۔ پاکستان بننے سے پہلے ان کی والدہ نے منت مانگی تھی کہ اگر میرا بیٹا ہوا تو وہ اس وقت تک شادی نہیں کرے گا جب تک سردار پور میں ماتھا نہیں ٹیک آئے گا۔ اوپر سے آواز آئی تو تھی کہ ایسا نہیں ہو سکے گا مگر شائد کسی نے سنی نہیں، سو لڑکا سرحد کے اس پار سے ماتھا ٹیکنے اس پار آ پہنچا۔ کافی تلاش کے بعد وہ سردارپور پہنچا، تو مندر کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ میزبان اسے مخدوم پور سے لے کر سرائے سدھو تک پھراتے رہے مگر ماتھا ٹیکنے والی جگہ نا ملنا تھی سو نہیں ملی۔
اس ساری ریاضت کے دوران ہریش کے میزبان، امرتسر سے یہاں آکر آباد ہونے والے چوہدری اشرف بندیشہ تھے۔ جب تک وہ خانیوال میں رہا، اشرف صاحب کے گھر والے اپنے اس نامعلوم مہمان کی محبت میں صرف دال ساگ کھاتے رہے اور ہریش کا کھانا دادی خود اپنے ہاتھوں سے بناتی رہی۔ جانے کا وقت آیا تو چوہدری صاحب نے ہریش سے پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ مہمان کہنے لگا؛
“تکلیف تو نہیں ہوئی لیکن یہ پتہ چل گیا کہ ماں ٹھیک کہتی تھی ۔ ۔ ۔ خانیوال کا تو پانی بھی گھی جیسا ہے”

No comments:

Post a Comment