Saturday, October 12, 2013


http://www.express.pk/story/180510/

یہ کم و بیش چار سو پندرہ سال قبل کا ذکر ہے، جب ہند اور سندھ پر مغلوں کی حکومت تھی۔
ایک دن مغلیہ دور کے گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین، جو خانِ زمانہ کے نام سے مشہور تھا، کی نظر دریائے سندھ کے بیچوں بیچ سکھر کے قریب واقع جزیرے پر قائم ایک چھوٹی سی ٹیکری (پہاڑی) پر پڑی۔ روہڑی کے کنارے جنوب مشرق میں موجود چھوٹی سی ٹیکری کی قدرتی کشش نے خان زمانہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ دریائے کے عین درمیان قدرتی کاری گری کے اس نمونے سے متاثر ہوکر گورنر سندھ نے اس ٹیکری پر پڑاؤ ڈال دیا۔ بہ وقت سحر سورج کی شعاعوں اور شب تاریک میں چاند کی کرنوں کے دریائی لہروں پر پڑنے کے دل فریب نظارے نے خان زمانہ کو سحر زدہ کردیا اور گورنر سندھ قدرت کی صناعی پر عش عش کر اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس ٹیکری کو اپنی بیٹھک بنانے پر مجبور ہوگئے۔
تاریخ میں اس جگہ نے قاسم خوانی جب کہ عرف عامہ میں ’’ستین جو آستان‘‘ یا ’’سات سہیلیوں کا آستانہ‘‘ کے نام سے جو شہرت پائی ہے وہ سندھ کے کم ہی مقامات کو حاصل ہے۔ ستین جو آستان کے سیدھے ہاتھ پر بکھر آئی لینڈ، عقب میں لینس ڈائون برج، سامنے سکھر بیراج اور سادھو بیلہ کی موجودگی نے اس مقام کی خوب صورتی کو چار چاند لگادیے ہیں اور اس کی اہمیت میں اضافہ کردیا ہے، جب کہ آستان کے الٹے ہاتھ پر انگریز دور کے دفاتر آج بھی قائم ہیں۔
اس مقام کے متعلق سینہ بہ سینہ چلی آنے والی ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ یہاں سات کنواری بیبیاں رہا کرتی تھیں، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجاداہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اوباش لوگوں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ اے اﷲ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔‘‘ ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں ، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘ اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔ لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور عوام اس مقام کو ستین جو آستان کے نام سے ہی جانتے، پہچانتے اور مانتے ہیں۔
اس کے برعکس تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
تاریخی حوالہ جات سے بات کی جائے تو مسلمان ہوں یا پھر غیر مسلم دریائے سندھ کو سب ہی انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انگریز دور ہو، مغل بادشاہت ہو یا پھر موجودہ زمانہ، ہر دور میں سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دریائے سندھ کو راہ گزر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ انگریز اور مغلیہ دور میں مشہور ہونے والی اکثر شخصیات کی وجہِ شہرت ان کے کارنامے اور ان کی شاہ کار تعمیرات تھیں۔ مغلیہ دور میں سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین نے بھی دریائے سندھ کے کنارے اس ٹیلے کو شاید ایسی ہی کسی تعمیر کے لیے چُنا، جو اس کے نام کو دوام عطا کردے۔
ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔ آستان پر موجود قبروں کی تعمیر میں اسی پتھر اور کاشی کا استعمال کیاگیا، یہ پتھر مکلی، ٹھٹھہ، چوکنڈی، جام لوہار (تونگ) ضلع کیر تھر، سندھ و بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں تاریخی مقامات پر نظر آتا ہے۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ روہڑی ہل، دادو میں واقع کیر تھر پہاڑی سلسلے یکساں نظر آتے ہیں۔ ستین جو آستان میں لائن اسٹون نرم پتھر کا استعمال بھی کیا گیا ہے، جب کہ دائیں ہاتھ پر اروڑ کے وسیع پہاڑی علاقے میں کالا پتھر جسے (CHERT) موجود ہے اور اکثر تعمیرات میں یہ چیز نظر بھی آتی ہے اور طویل عرصے سے انسان ان پتھروں کا استعمال کررہا ہے۔ ستین جو آستان پر ماہر کاری گروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی وفارسی زبان میں قبروں کے اوپر نقش و نگاری کی۔
ستین جو آستان کو مختلف زادیوں سے دیکھا جائے تو اس میں مغلیہ دور کے ماہر کاری گروں نے چھوٹے اور بڑے 12مینار تعمیر کیے، جن میں سے چار مینار جس پر ماہر کاری گروں نے کاشی کا خوب صورت استعمال کیا ہے، مسجد نما بارہ دری ہیں، چار مینار ابوقاسم اور اس کے خاندان کی قبروں کے تعمیر کردہ پلیٹ فارم کی نشان دہی کرتے ہیں، جب کہ چار چھوٹے مینار لینس ڈائون برج کے نزدیک دوسرے پلٹ فارم پر بھی تعمیر کیے گئے تھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ کاری گروں نے مینار، حجرے اور آستان کی تعمیر میں کاشی، مضبوط ٹائلز، چونا ، ریت اور پہاڑی پتھر کا خوب صورت انداز سے استعمال کیا۔
ماہر کاری گروں نے جن کا تعلق راجستھان سے بتایا جاتا ہے، ماہرانہ انداز سے پتھر کو کاٹ کر اس پر اعلیٰ قسم کی کاشی اور ٹائلز کا استعمال کرکے اسے ایک شان دار عمارت میں تبدیل کیا۔ خان زمانہ کی محفل کے موقع پر سیکیوریٹی کے انتظامات کے لیے اور محافظوں کے بیٹھنے کے لیے سیڑھیوں کے نزدیک دائیں بائیں تعمیر کیے گئے دو کمرے آج بھی نظر آتے ہیں۔ وصیت کے مطابق ابو قاسم المعروف نمکین اور اس کے قریبی عزیز و اقارب کو اسی مقام پر دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں کی تیاری اس پر خطاطی اور دل کش نقش و نگاری کیے ہندوستان کے بہترین کاری گروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
ان کاری گروں کی بہت سی نشانیاں چوکھنڈی، مکلی اور ٹھٹھہ کے دیگر قبرستانوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ راجستھان کے وسیع علاقے میں بھی موجود ہے۔ ستین جو آستان میں مدفون لوگوں کو رتبے کے حساب سے تدفین کیا گیا۔ خانِ زمانہ میر ابو قاسم المعروف نمکین گورنر سندھ کو سب سے اونچے مقام پر مدفن کیا گیا۔ سابق گورنر کے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور قریبی تعلقات رکھنے والوں کی قبریں راجستھان کے زردی مائل پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
ان کاری گروں کی معاونت کرنے والے اہل کاروں اور ان کے خاندانوں کے لوگوں کے لیے چونے اور ریت سے قبریں تیار کرائی گئیں، ستین جو آستان میں چار مختلف پلیٹ فارم تعمیر کیے گئے تھے، جن میں پہلے پلیٹ فارم پر قبروں کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معصوم بچے، دوسرے پلیٹ فارم پر سابق گورنر کے خدمت گار، تیسرے پلیٹ فارم پر عزیز و اقارب، چوتھے اور آخری پلیٹ فارم پر ابو قاسم المعروف نمکین اور ان کے عزیز و اقارب کی قبریں موجود ہیں۔
ستین جو آستان میں کم و بیش 100چھوٹی و بڑی قبریں موجود ہیں، جن پر اکبر اعظم کے دور کے رسم الخط کے کتبے نصب ہیں۔ سابق گورنر اور اس کے عزیز و اقارب کی اصل قبریں سیڑھیوں کے دائیں اور بائیں تعمیر ہونیوالے کمروں میں ہیں، جب کہ ستین جو آستان کے آخری پلیٹ فارم پر بنائے جانیوالی قبریں نشانی کے طور پر تعمیر کرائی گئی ہیں۔
4 سو سال قبل خان زمانہ کی جانب سے بنائے جانے والے ستین جو آستان پر آمد و رفت کے دشوار گزار راستوں سے گزار کر آخری سرے پر پہنچنا پڑتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وفاقی، صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے ستین جو آستان پر اوپر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنوائی جو کہ آج تک قائم ہیں۔
ماضی میں دریائے سندھ کا رخ اروڑ کی جانب تھا، سابق گورنر المعروف نمکین نے دریائے سندھ پر ایسے مقام کا انتخاب کیا جو ریمپ نمونہ تھا، سطح زمین سے اندازے کے مطابق 40 فٹ اوپر تعمیرات کا آغاز کیا، 4 سو سال قبل بکھر (سکھر) کا عروج ہوا کرتا تھا اور دریائے سندھ سکھر کے مقام پر سادھو بیلہ، جیئند پیر (زندہ پیر) اور بکھر آئر لینڈ جزیرے موجود تھے جو کہ آج بھی ہے۔
خان زمانہ سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں فروٹ میں سب سے زیادہ خربوزہ پسند تھا، ستین جو آستان کے نزدیک وسیع علاقے پر سبزیوں سمیت خربوزہ کی فصل بھی تیار کرائی جاتی تھی، مقامی خربوزہ انتہائی لذیذ ہوا کرتا تھا، بعض کتابوں میں تحریر ہے کہ ابو قاسم خربوزے کو اتنا پسند کرتے تھے کہ وہ دن میں کئی کلو خربوزہ کھایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کی بھی خاطر تواضع خربوزے سے کیا کرتے تھے۔
موئن جو دڑو، لاکھین جو دڑو کی تباہی کے بعد کچھ عرصے کیلئے راجہ داہر کے دور میں اروڑ آباد ہوا تاہم مختصر وقت کے بعد ماضی کا بکھر موجودہ سکھر کو آباد کیا گیا اور مغلیہ دور میں ابو قاسم نے اس جگہ (ستین جو آستان) کو اپنا ٹھکانا بنایا۔ شاعری مزاج سابق گورنر اکثر چاند راتوں میں محفل جمایا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ستین جو آستان کو بھی نقصان پہنچا، تعمیر ہونے والے 12میناروں میں سے چند ایک کے علاوہ تمام مینار خستہ حال ہوچکے ہیں۔ ستین جو آستان کے نیچے لائم اسٹون (پہاڑی پتھر) تیزی سے خراب ہورہا ہے اور ایک لیئر کی طرح ہوا، نمی نے پہاڑی کا بہت سا حصہ کاٹ دیا ہے۔ دور سے دیکھا جائے تو پیالے کے مانند نظر آتے ہے۔
سرزمین سندھ کو باب الاسلام کہلانے کا فخر حاصل ہے۔ صوفیوں، درویشوں اور اولیائے کرام کی مرہون منت درجۂ شہرت پانے والی سرزمین سندھ کو ایک خاص اعزاز حاصل ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، بیدل بیکس، خیر الدین شاہ المعروف جئے شاہ بادشاہ، پیر امیر محمد شاہ المعروف مکی شاہ بابا، صدر الدین شاہ بادشاہ و دیگر صوفیاء و اولیاء کرام کے علم و عمل کی وجہ سے یہ خطہ بھائی چارے کا مرکز بنا رہا۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ شہر سمیت دور دراز علاقوں سے خواتین کی بڑی تعداد اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔
ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) پر گذشتہ سات سال سے مجاور کے فرائض انجام دینے والی بیوہ شوکت خواجائی نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکھر سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی بے اولاد خواتین کی بڑی تعداد یہاں اپنی گود بھرنے کے لیے منت مانگنے کے لیے آتی ہیں، اولاد ہونا یا نہ ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے، ہم اس میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔ تاہم ایک صدی سے ہمارے بڑے یہاں پر فرائض انجام دینے کے علاوہ خدمت گاری کررہے ہیں، انہیں کی دی گئی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹرز سے مایوس ہوکر آنے والی بانجھ اور بیماریوں میں مبتلا خواتین کو سات سہیلیوں کے مزار کے اندر موجود حجرے میں ایک رسم کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خاتون کی کمر پر تالا باندھنے کے علاوہ حجرے میں موجود جھولوں پر مختلف رنگ کے دھاگے باندھے جاتے ہیں۔
منت مانگنے والی خواتین کو اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے، میں یومیہ 10گھنٹے دور دراز علاقوں سے آنے والی کم و بیش ایک درجن خواتین کو دینی تعلیم کے علاوہ ایک عرصہ سے چلنے والی رسوم و رواج کے حوالے سے آگاہ کرتی ہوں، سب پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اولاد دینا اﷲ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کسی بھی شخص کو کچھ نہیں دے سکتا۔ تاہم عقیدت مند خواتین کی بڑی تعداد سات سہیلیوں کے مزار پر آکر ہم سے ملاقات کرتی ہے اور جو بھی ہوتا ہے، ہم انہیں مفید مشورے دیتے ہیں سب سے پہلے لیڈی ڈاکٹر سے تفصیلی معائنہ کرانا شامل ہے۔ مزید بتایا کہ یہاں آنے والی خواتین سے کسی بھی قسم کی رقم وصول نہیں کی جاتی، تاہم خوشی سے جو بھی نذرانہ دیتا ہے وہ چندہ بکس میں ڈال دیا جاتا ہے، ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سات سہیلیوں کے انڈر گرائونڈ چار کمرے (حجرے) موجود ہیں، جن میں صدیوں پرانی پہاڑی پھٹنے کی نشانی بھی واضح ہے۔ اسی طرح اروڑ کے نزدیک بھی پہاڑ پھٹنے کی نشانیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر خواتین کے مسائل معلوم کرکے انہیں روحانی علاج بتاتی ہیں۔ متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے بیٹھنے کے لیے کمرے، خواتین کی حاجت پوری کرنے کے لیے بیت الخلاء خستہ حال ہوچکے ہیں، ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو تحریری درخواستیں دیں مگر آج تک تختی لگانے کے علاوہ کسی بھی قسم کا کام نہیں ہوا۔
روہڑی سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ مسماۃ رابعہ اور اس کی نند مسماۃ سبحانہ کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے یہاں پر خدمات انجام دینے والی مجاورہ سے دم کرانے آرہی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ یہاں پر آنے سے بیمار بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ آج میں اپنے ایک سالہ بیٹے بلال کو لے کر آئی ہوں، جو کئی دن سے بخار میں مبتلا ہے، میں نے یہاں آکر دعا مانگی ہے اور دم بھی کرایا ہے، اس کی بدولت مجھے امید ہے کہ اس کی صحت میں بہتری آئے گی۔
شہر سمیت ملک و بیرون ممالک سے آنے والے لوگوں کو لینس ڈائون برج اور سات سہیلیوں کے مزار کے درمیان گہرے پانی کی کشتی میں سیر کرانے والا 52سالہ محمد اسحاق میر بحر المعروف جوگی فقیر کا کہنا ہے کہ میرے آبائو اجداد کا کام دریا میں کشتی چلانا، مچھلی پکڑنا، کھیتوں سے تیار فصلوں کو شہر تک پہنچانا تھا۔ میں گذشتہ 15سال سے ستین جو آستان پر بلامعاوضہ صفائی ستھرائی کرتا ہوں اور یہاں آنے والے لوگوں کو فی سبیل اﷲ پانی فراہم کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ دور دراز علاقوں سے آنے والے خاندانوں کو دریا میں کشتی کے ذریعے سیر کراکر اپنا پیٹ پالتا ہوں۔ دریا میں ضرورت سے زیادہ پانی کی موجودگی، سیلاب کے خطرے کے پیش نظر میں نے عارضی طور پر لوگوں کو تفریح کرانا بند کردیا ہے اور دن بھر ستین جو آستان پر صفائی و ستھرائی کرنے، جھاڑو لگانے، نیم کے درخت کے نیچے رکھے پانی کے مٹکوں کو بھرکر لوگوں کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔
چیئرمین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور پروفیسر ڈاکٹر قاصد ملاح نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ اب تک کی جو تحقیق کی گئی ہے اور جو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) میں چار سو سال قبل ازبکستان، ایران، افغانستان اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے سات درویش آتے رہے، جنہوں نے دریائے کے نزدیک اس چوٹی پر چلہ کاٹا اور سات سہیلیوں کے مزار میں موجود کمرے یا حجرے جسے کہتے ہیں وہاں عبادت کی، جن میں شیخ عبدالحمید سہروردی، شیخ عبداﷲ ہراری، حمزہ بن رافع، یوسف بن بکھری، سیف الدین شیرازی، عبدالحسن خیر خوانی شامل ہیں، جب کہ ایک نام علی ڈنو احمد بصری مقامی درویش لگتا ہے۔ مذکورہ درویش کی بدولت ہی باہر سے آنے والے عبادت گزاروں نے یہاں چلہ کاٹا ہوگا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں بہت سے لوگوں نے اس جگہ کو سات سہیلیوں سے منسوب کرنا شروع کردیا۔ تاہم اس حوالے سے آج تک کوئی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ سکھر اور روہڑی شہر کو ملانے والے لینس ڈائون برج کے نیچے وسیع علاقے پر کھیتی باڑی کی جارہی ہے۔ چند سال قبل دریائے سندھ میں نہانے والوں کی زندگیاں محفوظ بنانے، ایمرجینسی میں طبی امداد اور ریسکیو آپریشن کرنے کے لیے یہاں نیوی کی جانب سے دفتر قائم کیا گیا تھا۔ ضرورت پڑنے پر غوطہ خور مذکورہ مقام سے ریسکیو آپریشن کرکے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بناتے ہیں۔
خان زمانہ امیر قاسم المعروف نمکین کی دریافت ستین جو آستان بلا شک و شبہہ قدرت کی صناعی اور انسانی فن تعمیر کا شاہ کار ہے، جو کہ خوب صورتی و دل کشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ دریائے کے سینے پر بہتی کشتیاں چاندنی راتوں میں ایک رومان پرور، سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں جب کہ شام کے وقت ڈھلتے ہوئے آفتاب کی سرخی کا منظر بھی بھلائے نہیں بھولتا، دریائے سندھ کے عینِ وسط میں جزیرے پر قائم ستین جو آستان آج بھی اپنی خوب صورتی و دل کشی کی بدولت ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ستین جو آستان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لیے موثر اقدامات کرے، اپنی مرادوں کی برآوری کے لیے ستین جو آستان پر حاضری دینے اور بہ غرض تفریح آنے والوں کو سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی۔ سات بیبیوں کی کہانی من گھڑت اور روایات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا، خان زمانہ چاندنی راتوں میں اس مقام پر اپنی محفلیں بھی سجایا کرتے تھے۔
ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہوجاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ خواتین کی بڑی تعداد ستین جو آستان پر حاضری لگادیتی ہیں، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں

ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔

تصویری خاکہ ۔ — ماہ جبیں منکانی / ڈان۔ کام
مخدوم پور سے نکلی ٹرین میاں شمیر کے راستے خانیوال جا رکتی ہے۔ شہر میں ایک سٹیشن، ایک جنگلے والی کوٹھی اور ڈھیر ساری یادیں ہیں۔ اسٹیشن پاکستان کا دوسرا بڑا جنکشن ہے، کوٹھی شہر کی پہلی بڑی کوٹھی ہے اور یادیں اب گرم ہوا میں ریت کے زروں کی طرح اڑتے اڑتے کبھی ماتھے کی شکنوں میں بیٹھتی ہیں اور کبھی آنکھوں کے کونوں میں پڑاؤ ڈالتی ہیں۔
سول لائنز میں واقع جنگلے والی کوٹھی کی بھی اپنی ہی تاریخ ہے۔ کہتے ہیں سر ولیم رابرٹس جو پیشے کے اعتبار سے محکمہ زراعت کے افسر تھے، 1906 میں یہاں پہنچے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے یہاں رابرٹس کاٹن ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی اور یہ کوٹھی تعمیر کروائی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، لکڑی کے پھاٹک جیسے جنگلے کے سبب ولیم رابرٹس اور ان کی کوٹھی سارے شہر میں مشہور ہو گئی۔ روزگار کا سلسلہ بڑھا تو ولیم صاحب کے بیٹے ڈاکٹر تھامس جونز رابرٹس بھی ہندوستان آ گئے۔ کام تو خیر کیا ہونا تھا، خانیوال کی بود و باش انہیں اتنی پسند آئی کہ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
پاکستان بنا تو انہوں نے جنگلی حیات کے ادارے کو بڑی محبت سے پروان چڑھایا اور The Birds of Pakistan جیسی کتاب لکھی جو اس علاقے میں پائے جانے والے پرندوں کا ایک مستند حوالہ ہے۔ رہ گئی بات رابرٹس کاٹن ایسوسی ایشن کی، تو اس کا دفتر اب بھی چک شاہانہ روڈ پہ قائم ہے۔
گئے وقتوں کی یاد میں ایک Forgetti صاحب ہیں جو کبھی کبھار یہاں دکھائی دیتے ہیں اور پچھلی صدی میں رابرٹس صاحب کے لگائے ہوئے سو سو سال پرانے کچھ پیڑ ہیں جو وقت کی بھاگ دوڑ سے آزاد ہیں۔
شہر آباد ہونے کی کہانی بھی غلام عباس کے “آنندی” جیسی ہے۔ آج سے تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے یہاں ایک معمولی گاؤں ہوا کرتا تھا، جسے کہنہ خانیوال کہتے تھے۔ 1865 میں یہاں اسٹیشن بنا اور ریل پہنچی۔ تھوڑا عرصہ گزرا تو ایک سرائے بن گئی جس کے آثار اب بھی دوکانوں کے بیچ بیچ کہیں دکھتے ہیں، پھر جیسے شہر بیدار ہو گیا۔ سات سالوں میں اتنی ترقی ہو ئی کہ گیان دینے کے لئے سکول کھولنا پڑا۔
صدی پلٹی تو لوگوں کو لگا کہ اب ترقی کا سفر تھوڑا دھیما پڑ جائے گا مگر وقت کی عمر کہاں ہوتی ہے جو ماند پڑے۔ 1904 میں رہنے والے صاحب لوگوں کے لئے ریلوے کالونی بنی اور دورے والے بابو کے لئے کینال ریسٹ ہاؤس۔
چار سال گزرے تو لوئر باری دوآب کینال بھی یہاں آن پہنچی۔ اسی نہر کے دفاتر میں بیٹھ کر خانیوال کا پہلا نقشہ بنایا گیا، جس میں ایک طرف پرانا شہر ہے، ایک طرف سول لائنز کچہری اور کلب اور دونوں دنیاؤں کے بیچ میں ریل کی لکیر۔
1911 میں خانیوال کو ٹاؤن کا درجہ دیا گیا اور اگلے سال ہی یہاں پہلا ریلوے ہسپتال بنا۔ آباد کار آتے گئے، چک آباد ہوتے گئے اور پانچ سال بعد خانیوال تحصیل بن گیا۔ 1921 میں یہاں پہلا اینگلو انڈین ورنیکولر سکول کھلا اور 1930 میں سول لائنز کے ساتھ ہی خالصہ ہائی سکول کا افتتاح ہوا۔ جب اتنا کچھ بس گیا تو پھر سنٹرل کوآپریٹو بنک نے بھی اپنا دفتر کھول ڈالا۔
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے بلاکوں میں مختلف مذہب، طبقے اور رویے آتے گئے اور آباد ہو تے گئے۔ 1925 کے خانیوال کے بلاک نمبر 6 میں سناتن دھرم مندر ہوا کرتا تھا، بلاک نمبر 11 میں مرکزی جامع مسجد تھی اور بلاک نمبر 4 میں گورودوارہ سنگھ سبھا۔
تھوڑا وقت گزرا تو گرودوارہ کے ساتھ ہی گورو نانک لائبریری کھل گئی۔ پینتیس کا سن آیا تو نئے قانون کے ساتھ ساتھ خانیوال میں نیا گھاٹ بھی بنا جسے گاربٹ گھاٹ کہا جانے لگا۔
دو سال اور گزرے تو شہر کے ایک متمول شخص، بھوجا رام نے مسافروں کے لئے ایک سرائے بنوائی۔ اسی دیکھا دیکھی میں کچھ اور لوگوں نے سادھوؤں کے لئے کٹیا گھر بھی بنوا دیا۔ پہلے پہلے شہر میں دو شمشان گھاٹ ہوا کرتے تھے۔ آبادی بڑھی تو مردے بھی لاوارث ہونے لگے، ایسے میں کوٹ بیربل سے آگے لاش گھر بنوایا گیا۔
اب کچھ ایسا ہے کہ بلاک نمبر دو کے آریہ سماج مندر اور لکڑی منڈی کے دھرم شالہ کے کچھ کچھ آثار ملتے ہیں۔ گورودوارے کی جگہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں آتش بازی بنتی ہے اور مذہب کا پیلا، گندھک کے پیلے میں رچ بس گیا ہے۔ گھاٹ سمٹتے سمٹتے مٹ گیا ہے۔
جب سے لوگوں نے کھلے دل اور کھلے ماتھے کے ساتھ سفر کرنا چھوڑا، سرائے بھی ویران پڑی ہے۔ جنگلے والی کوٹھی کے سامنے واقع سادھو گھر کی اوپر والی لکڑی کی جعفریاں اب ادھ کھلی آنکھوں سے نیچے نئی دوکانیں دیکھتی ہیں۔ شمشان گھاٹ پہ بچے کرکٹ کھیلتے ہیں اور رہی بات لاش گھر کی تو اسے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں زندوں کو گھر نہیں ملتا، وہاں لاش گھر کی جگہ کون چھوڑتا۔
مٹی کی زرخیزی کے سبب اچھے وقتوں میں یہاں پنجاب بھر کی گندم اور کپاس اگتی اور ملتی تھی۔ غلے کے ذخیرے کے لئے گودام تھے اور کپاس کی جننگ کے لئے فیکٹریاں اور کچھ گودام تو اس قدر بڑے تھے کہ ریل کی پٹریاں اندر تک چلی جاتی تھیں، مگر پھر آزادی مل گئی ۔ سوراج مل گیا مگر اپنا اناج نہ ملا۔ پہلے گندم لینے کے لئے اونٹوں کے گلوں میں تختیاں ڈالنا پڑی پھر آہستہ آہستہ ریل کی پٹڑیاں بھی بک گئیں۔
شہر کے آس پاس ہنومان گڑھ اور سردارپور کے گاؤں ہیں جہاں تقسیم سے پہلے کے غیر تقسیم شدہ لوگ رہا کرتے تھے۔
1974 کی بات ہے کہ کینیڈا سے کوئی ہریش صاحب خانیوال آئے اور لوگوں سے پرانے مندروں کے بارے میں پوچھنے لگے۔ پاکستان بننے سے پہلے ان کی والدہ نے منت مانگی تھی کہ اگر میرا بیٹا ہوا تو وہ اس وقت تک شادی نہیں کرے گا جب تک سردار پور میں ماتھا نہیں ٹیک آئے گا۔ اوپر سے آواز آئی تو تھی کہ ایسا نہیں ہو سکے گا مگر شائد کسی نے سنی نہیں، سو لڑکا سرحد کے اس پار سے ماتھا ٹیکنے اس پار آ پہنچا۔ کافی تلاش کے بعد وہ سردارپور پہنچا، تو مندر کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ میزبان اسے مخدوم پور سے لے کر سرائے سدھو تک پھراتے رہے مگر ماتھا ٹیکنے والی جگہ نا ملنا تھی سو نہیں ملی۔
اس ساری ریاضت کے دوران ہریش کے میزبان، امرتسر سے یہاں آکر آباد ہونے والے چوہدری اشرف بندیشہ تھے۔ جب تک وہ خانیوال میں رہا، اشرف صاحب کے گھر والے اپنے اس نامعلوم مہمان کی محبت میں صرف دال ساگ کھاتے رہے اور ہریش کا کھانا دادی خود اپنے ہاتھوں سے بناتی رہی۔ جانے کا وقت آیا تو چوہدری صاحب نے ہریش سے پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ مہمان کہنے لگا؛
“تکلیف تو نہیں ہوئی لیکن یہ پتہ چل گیا کہ ماں ٹھیک کہتی تھی ۔ ۔ ۔ خانیوال کا تو پانی بھی گھی جیسا ہے”

Butkara Stupa


Butkara Stupa

From Wikipedia, the free encyclopedia
Evolution of the Butkara stupa.
The Butkara Stupa is an important Buddhist stupa in the area of SwatPakistan. It may have been built by the Mauryan emperor Ashoka, but it is generally dated slightly later to the 2nd century BCE.
The stupa was enlarged on five occasions during the following centuries, every time by building over, and encapsulating, the previous structure.

Excavation[edit]

The Indo-Corinthian capital from Butkara Stupa under which a coin of Azes II was found. Dated to 20 BCE or earlier (Turin City Museum of Ancient Art).
Indo-Scythian devotee, Butkara I.
The stupa was excavated by an Italian mission (IsIOAO: Istuto Italiano per l'Africa e l'Oriente), led by archaeologist Domenico Faccenna from 1956, to clarify the various steps of the construction and enlargements. The mission established that the stupa was "monumentalized" by the addition of Hellenistic architectural decorations during the 2nd century BCE, suggesting a direct involvement of the Indo-Greeks, rulers of northwestern India during that period, in the development of Greco-Buddhist architecture.[1]
An Indo-Corinthian capital representing a Buddhist devotee within foliage has been found which had a reliquary and a coins of Azes II buried at its base, securely dating the sculpture to earlier than 20 BCE.[2]
The nearby Hellenistic fortifications of Barikot are also thought to be contemporary.
A large quantity of the artifacts are preserved in the National Museum of Oriental Art and the City Museum of Ancient Art in Turin's Turin City Museum of Ancient Art.

World Heritage Sites in Pakistan


Pakistan has inherited a wide array of heritage sites, six of which have been inscribed on the list of "World Heritage Sites", while a new tentative list has been prepared and submitted to the World Heritage Centre for approval. A brief description of sites already inscribed in the World Heritage List is given below:
Archaeological Ruins at Moenjodaro
The ruins of an immense city, Moenjodaro, which flourished in the valley of the Indus in the 3rd millennium B.C. were inscribed in the World Heritage List in 1980. The remains of the city are situated on the western bank of River Indus, about 12 kilometres from Moenjodaro railway station, in Larkana District of Sind.
The well-planned city, built mostly in baked brick buildings, having public baths, and a college of priests, elaborate drainage system, soak pits for disposal of sewerage and large state granary, bears testimony that it was a metropolis of great importance, with approximately forty thousand inhabitants, enjoying a well-organized civic, economic, social and cultural life.
Excavations comprising figures of animals like rhinoceros, tigers and elephants on seals recovered from the site, and the brick-lined street drains, suggest that the region enjoyed heavier rainfall at that time than at present. Wheat, barely, sesamum, field peas, dates and cotton appear to have been the main crops. Discovery of precious stones and other metallic objects, not normally found in this region, indicate trade with foreign countries.
It is not known for certain, how the great metropolis came to a tragic end. A gradual decline of the civilization, before the ultimate end is however, clearly noticeable, and an invasion by the Aryans or the neighbouring hill tribes, appears to have sealed the fate of Moenjodaro.
The remarkable structural remains of Moenjodaro, when excavated in the early 20s, were in excellent state of preservation, but the phenomenon of salt efflorescence on them was soon noticed. Over the years the problem has assumed alarming proportions, leading to damaging of bricks and disintegration of the structures. Another serious threat to Moenjodaro is that of inundation, posed by the River Indus, flowing very close to the site.
UNESCO, approached by the Government of Pakistan launched an International campaign to safeguard Moenjodaro. The international community responded favourably, and the international organizations such as UNDP, provided financial as well as technical resources to address the main problems of River and Ground Water Control. Some equipment for scientific study and execution of work and training of a few specialists was also arranged. Conservation of structural remains however, did not match the speed of deterioration. The International Campaign has since been closed, and the responsibility of maintenance and further conservation now rests with the Department of Archaeology, Government of Pakistan.
Taxila
From the ancient neolithic tumulus of Saraikala to the ramparts of Sirkap, (200 B.C.), to the city of Sirsukh, dating from the 1st century A.D., Taxila illustrates the different stages in the development of a city on the Indus, alternately influenced by Persia, Greece and Central Asia and which, from the 5th century B.C. to the 2nd century A.D., was an important Buddhist centre of learning. Taxila was inscribed in the World Heritage List in 1980.
The remains of the Buddhist establishments associated with Taxila, are spread over several kilometres on all sides. The large scale archaeological excavations in the valley, exposed vast areas of ancient structures. Most of these are built in lime stone masonry. Measures for conservation taken soon after the excavations, largely stabilized the structures. The wild growth of vegetation, weeds, lichen, fungus, mosses, atmospheric pollution etc. are largely responsible for the deterioration, and still pose major problems in conservation.
In a workshop sponsored recently by UNESCO, the concerned officials were imparted training to deal with these problems. Lately, the Taxila Valley has also become the hub of industrial activity, and several industrial units have been set up in the valley. Moreover, the rapid increase in population is posing new threats to the monuments. To deal with such problems, the Government of Pakistan has established a 'protected zone', which covers all the important areas of archaeological interest. Restrictions imposed in the protected zone, however, have not been very effective. Last year, a sports stadium was built in an open area of the Bhir Mound, the first city site. Orders have now been issued for its demolition.
Buddhist Ruins of Takht-i-Bahi and Neighbouring City Remains at Sahr-i-Bahlol
These extensive remains of the Buddhist monastic establishment or Sangharama, were placed on the World Heritage List in 1980, and popularly known as the "throne of origins". This archaeological site and its associated secular buildings are located about 15 kilometres north-east of the city of Mardan in the North-West Frontier Province of Pakistan.
The Takht-i-Bahi Complex, a gigantic Buddhist establishment was discovered in 1852 by European Lieutenants Lumsden and Stokes. The complex comprises several well-knit units:
i) Court of Many Stupas
ii) Monastery
iii) Main Stupa
iv) Assembly Hall
v) Low Level Chambers
vi) Courtyard
vii) Court of Three Stupas
viii) Wall of Colossi
ix) Secular buildings
All these structures are built in grey-coloured limestone, in mud mortar.
About five kilometres south-west of Takht-i-Bahi, is the modern village of Sahr-i-Bahlol, which occupies an extensive mound containing the remains of an ancient city, dating back to the same period.
The excavations at Takht-i-Bahi and Shar-i-Bahlol have yielded a large number of fine sculptures of Buddha, Boddisattavas and other deities, both in stone and stucco. Other valuable antiquities have also been found in the vicinity.
Being of outstanding quality and significance, the remains of Takht-i-Bahi have received much attention of the conservators. Consequently, conservation work on the site has been carried out periodically. The recent conservation works are a good example of a judicious mix of traditional as well as modern conservation practice. However, the residential buildings too, need the attention of conservators.
Historical Monuments of Thatta
The remains of the city of Thatta, inscribed in the World Heritage List in 1981, and its dilapidated necropolis provide a unique view of the Sind civilization. The capital of three successive dynasties and later ruled by the Mughal emperors, Thatta is a symbol of the glorious past of Sind from the 14th to the 18th centuries A.D. During this period, Thatta was one of the major seats of learning, fine arts and handicrafts.
The architecture of Thatta bears the distinct marks of its variant ancestry, its hallmark being the variety of forms and techniques of decoration. The brickwork found on the buildings of Thatta, is a superb example of craftsmanship.
The buildings, the tombs and the great necropolis of Thatta are now in shambles and need immediate attention. The Department of Archaeology and Museums, Government of Pakistan, is responsible for the site's maintenance and conservation. A detailed study had been conducted a few years back, in consultation with national and international experts. In the light of the findings of this study, the proposed conservation measures entail an amount of US$ 63 million, far beyond the government's resources. Efforts have been made by the Department of Archaeology and Museums, Government of Pakistan, to capture the interest of visitors, by installing general and individual information boards on the monuments. But much needs to be done to make the site more presentable to attract tourists and other visitors.
Fort and Shalimar Gardens in Lahore
The history of Lahore can be traced back to the 2nd Century A.D. with the city having enjoyed the status of a capital for about a thousand years - sometimes of an empire and at other times that of a province. Each dynasty of its rulers - the Ghaznavids, Ghaurids, Turks, Sayyads, Lodhis, Mughals, Suris, Sikhs and the British - has left its imprints on the city.
Excavations conducted in the Lahore Fort revealed existence of the city in the early historic period. It is therefore believed that, the Fort was built with the founding of the city itself, its chequered history bearing testimony to the vicissitudes it suffered. The Mughal rulers however, brought this exercise to a halt, by providing it real stability.
The Fort is the only monument in Pakistan, which represents a complete history of Mughal architecture, as it was renovated, added and improved upon by subsequent Mughal rulers, after Emperor Akbar.
After the collapse of the Mughal authority, the Fort suffered again due to poor additions, alterations and an aggressive siege in 1841. After having demolished its southern fortification wall, in 1927, the British Government handed over the Fort to the Archaeological Survey of India, which took measures to remove systematically, all the additions and alterations carried out during the British rule, in an attempt to restore the original layout of the buildings and gardens.
Since Independence in 1947, the Department of Archaeology of the Government of Pakistan has been carrying out conservation work, on a limited scale though. Moreover, the pace of deterioration has rapidly outstripped the conservation efforts. The southern portion of the fortification wall and the Matbakh or the Royal Kitchen have demolished, while the ceiling of the Shish Mahal (Palace of Mirrors) is on the verge of collapse. Efforts are being made, in cooperation with UNESCO experts, to save the latter, after a detailed research into the cause of its decay.
The Shalimar Gardens, laid out at the command of Emperor Shah Jahan, reflect the genius of the Mughal landscape architecture, and embody the Mughal concept of a perfect garden: an enclosed area divided into symmetrical patterns of turf, containing water canals, ornamental tanks, and fountains, lined by cypresses and rose bushes.
Having lost much of their original splendor and beauty, at the hands of Sikh plunderers during the rule of Ranjit Singh, the Gardens were handed over to the Department of Archaeology in 1913. Since then, sustained efforts have been made to preserve the buildings, restore the Gardens to their original appearance and, recreate the former atmosphere.
UNESCO has time and again, provided expert advice through experienced consultants and encouraged the authorities concerned, to take appropriate measures to create awareness among the masses, to help preserve the Gardens.
The Lahore Fort and the Shalimar Gardens, the two exceptional examples of the splendor of the Mughal era, were inscribed together, in the list of World Heritage Sites in 1981.
Rohtas Fort
Qila Rohtas or the Rohtas Fort is an exceptional example of early Muslim military architecture in Central and South Asia, for it was built essentially for military purposes. Following the defeat of the Mughal Emperor Humayun in 1541, Sher Shah Suri built a strong fortified complex at Rohtas, a strategic site about 16 kilometres north-west of the city of Jhelum.
The gigantic fort is founded on steep rocks jutting into the river Kahan, its ramparts protected on the west and north sides by the river and by high hills on its east and south. It was never taken by assault and survives intact to the present day. The main fortifications consist of the massive walls, which extended for more than 4km; they are lined with bastions and pierced by monumental gateways.
There are indications that more structures had existed earlier, which either collapsed due to neglect, or were demolished in Mughal or later periods.
The Rohtas Fort is now a protected monument under the Antiquities Act 1975, and maintained by the Department of Archaeology, Government of Pakistan. Owing to its marvelous qualities of strength and solidity, and being the finest specimen of medieval military architecture in Pakistan, the fort was inscribed in the World Heritage List, by UNESCO, in 1997.